Breaking

14/08/2020

درویش صفت بہادرمسیحا۔۔ڈاکٹر خالد مسعود قیصرانی شہید،ستارہ شجاعت

 

ڈاکٹر خالد مسعود قیصرانی ،اپنے شعبے کے انتہائی قابل ڈاکٹر سے زیادہ ایک عظیم انسان تھے جن کی زندگی کا مشن غریب اور دکھی انسانیت کی خدمت کرنا تھا۔ڈاکٹر صاحب کی کرشماتی مسکراہٹ پہلی نظر میں ہی لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتی تھی۔درد تکلیف سے بلبلاتا مریض،ان کے دستِ مسیحائی اور کرشماتی مسکراہٹ سے مکمل صحت مند ہو جاتا تھا۔ایک دفعہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ آپ سارادن اور رات گئے تک مریضوں میں گھرے رہتے ہیں،آپ کو ڈر نہیں لگتا؟۔وہ مسکرائے اور بولے” مریض کو تندرست تو اللہ کی ذات کرتی ہے ،ہم تو بس وسیلہ ہوتے ہیں اور جب مریض ہمارے ہاتھوں ٹھیک ہوجاتا ہے تو اس کے چہرے پر واپس آئی ہوئی رونق دیکھ کر جو سکون اور روحانی مسرت ملتی ہے وہ ناقابلِ بیان ہے اور یہ اس ڈر سے کہیں زیادہ طاقتور ہے“۔ڈاکٹر صاحب کی پوری زندگی اس سکون اور روحانی مسرت سے عبارت تھی۔ان سے کم قابلیت کے ڈاکٹروں نے بہت کم وقت میں پرتعیش رہائش گاہیں،فارم ہاوسز اور بھاری بینک بیلنسزبنا لیے تھے۔لیکن آفرین ہے اس مردِ درویش پر کہ کبھی چور دروازے سے دولت اکٹھی کرنے کا سوچا تک نہیں تھا بلکہ اپنے رزقِ حلال کا بڑا حصہ اللہ کی راہ میں خاموشی سے خرچ کر دیتا تھے۔

   

     

     جب پوری دنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑی اور ہر طرف ایک خوف و ہراس کی چادر تن گئی تو معدودے چند ڈاکٹرصاحبان اس وبا سے انسانیت کو بچانے کے لیے آگے آئے،ان میں ڈاکٹر خالد مسعود قیصرانی سرفہرست تھے۔ڈاکٹر صاحب کو ساتھی ڈاکٹروں نے سمجھایا کہ آپ بھی دوسرے ڈاکٹرز کی طرح چھٹی لے کر گھر بیٹھ جائیں لیکن ڈاکٹر صاحب پوری احتیاط اور دکھی انسانیت کی خدمت کے جذبے کے ساتھ اپنے فرائضِ منصبی بجا لاتے رہے۔بعض دوست ڈاکٹروں نے ان کی اس فرض کی ادئیگی کو خودکشی کا بھی نام دیا۔ڈاکٹر صاحب کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ اگر گھر کو آگ لگی ہو تو کیا کوئی بھی اس آگ کو بجھا کر آگ میں پھنسے ہوئے لوگوں کو باہر نہ نکالے؟۔آگ یا مرض کے ڈر سے چھپ کر بیٹھ جانا ان کے نزدیک بزدلی تو تھی ہی،اپنے پیشے کے ساتھ بددیانتی بھی تھی۔ان کے نزدیک یہ ایک نادیدہ جنگ تھی جسے بڑے حوصلے،بہادری اور سمجھداری سے لڑنا تھا۔جب ان کے بیشترساتھی ڈاکٹروں نے ہتھیار ڈال دیے تھے اور ان کے دکھی انسانیت کی خدمت کے جذبے کا مذاق تک اڑایا تھا،تو ڈاکٹر صاحب بہت کم ساتھی ڈاکٹروں کے ساتھ اس میدان ِکارزار میں ثابت قدمی سے دٹے رہے تھے۔ان کا واحد مقصد کورونا وائرس کے شکنجے سے سسکتی انسانیت کو بچانا تھا۔روازنہ بیسوں مریض ان کے علاج سے صحت یاب ہورہے تھے ۔پھر جس طرح بہادروں کے ساتھ اکثر میدانِ جنگ میں ہوتا ہے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بھی وہی ہوگیا۔جس طرح انجانی سمت سے آئی ہوئی کوئی گولی مجاہد کا سینہ چھلنی کرتی ہوئی گزر جاتی ہے اس طرح کورونا وائرس گلے کے راستے ان کے پھیپھڑوں تک پہنچ گیا۔یہ نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کو اس نادیدہ جنگ کی اندوناکیوں اور وحشتوںکا اندازہ نہیں تھا۔ایک انتہائی قابل اور ذہین ماہرِ امراضِ سینہ کے طور پر وہ اس مہلک وائرس کی تمام چیرہ دستیوں سے آگاہ تھے لیکن جب مجاہد محاذِ جنگ پر آجاتا ہے تو پھر اسے اپنی زندگی سے زیادہ اپنے ملک و قوم کی سا لمیت عزیز ہوتی ہے۔ڈاکٹر صاحب اس جنگ میں فرنٹ لائن پر لڑے اور بہت خوب لڑے۔سینکڑوں گھروں کے چراغ گل ہونے سے بچائے اور آخر اپنے اور دوسروں کے حصے کی شمعیں جلاکر خود بجھ گئے۔خود بجھنے کایہ مطلب ہر گز نہیں کہ ان کی جلائی ہوئی شمعیں بجھ گئی ہیں۔ڈاکٹر صاحب اپنے خون سے جو انسانیت کی خدمت کی شمعیں جلا گئے ہیں وہ تاابد روشن ورخشاں رہیں گی۔خوف کی کوئی آندھی،ڈرکا کوئی طوفان

کبھی انہیں نہیں بجھا سکے گا۔

            ایک انتہائی قابل اور ذہین ڈاکٹر اور ایک عظیم انسان تو وہ تھے ہی،ایک مہربان اور محبت کرنے والے شوہر کے ساتھ ساتھ وہ ایک شفیق باپ بھی تھے۔فادر ڈے سے ایک دن پہلے چلے جانے کی ان کی یہ دکھی کر دینے والی ادا ،ان کے تمام چاہنے والوں خصوصاً ان کے بیٹوں کو اور سوگوار کر گئی ہے ۔لیکن اس میں بھی ان کی اپنی اولاد سے محبت اور انہیں ہر شعبے میں آگے دیکھنے کی تڑپ چھپی ہوئی ہے کہ ان کے بیٹے ساری دنیا سے ایک دن پہلے فادر ڈے منائیں گے اور اپنے بہادر باپ کو یاد کر کے ان کے ادھورے خوابوں کی تکمیل کریں گے۔

                        جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا،وہ شان سلامت رہتی ہے

                        یہ جان تو آنی جانی ہے،اس جان کی کوئی بات نہیں

 

                        میدانِ وفا دربار نہیں،یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں

                        عاشق تو کسی کا نام نہیں،کچھ عشق کسی کی ذات نہیں

 

                        یہ بازی ،عشق کی بازی ہے،جو چاہو لگا دو ڈر کیسا

                        گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں۔

حکومت ِ پاکستان نے ڈاکٹر خالد مسعود قیصرانی شہید کی بہادری اور دکھی انسانیت کے لیے دی گئی گرانقدر خدمات کے اعتراف میں انہیں 14 اگست 2020 کو اعلیٰ سول ایوارڈ ستارہ شجاعت سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کے جنت الفردوس میں درجات  بلند کرے اور ان کو لواحقین کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق دے اور ہمیشہ ان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔آمین ثم ِ آمین

3 comments:

  1. ڈاکٹر خالد صاحب زبدگی میں ہی جنت کما چکے تھے، یہ واقعہ تو بس انکی رخصتی تھی

    ReplyDelete
  2. Dr.khalid masood qaisrani sb. Allah bless him and his family,
    As i know him personally,was a pious,devoted, down to earth,brave,loving and caring to patients, loyal to country, helpful to needy....and so on.we can not express him in words.

    ReplyDelete
  3. Jitni tareef ki jaye km hy ... Doctor sahib waqai kamal shakhsiat thy...Allah darjat buland kray.

    ReplyDelete