Breaking

03/01/2021

Zero Point Urdu Column by Javed Chaudhry (Asal Asasa)Daily Express News

 Zero Point Urdu Column by Javed Chaudhry (Asal Asasa) Published in Daily Express News Dated:03 Jan 2021

Read all columns of Javed Chaudhry on Daily Express,Zero Point Urdu columns, articles By Javed Chaudhry,Zero Point on political and current affairs.Express Newspaper online column,Asal Asasa 

وہ پامسٹ ہمیں لندن میں یوں ہی چلتے پھرتے مل گیا تھا‘ میں اور میرا دوست‘ ہم دونوں راستہ بھٹک گئے تھے اور ہم اندازے سے آکسفورڈ اسٹریٹ تلاش کر رہے ہیں‘ ہم ایڈریس سمجھنے کے لیے ایک کافی شاپ میں چلے گئے۔

کافی شاپ کے سامنے مینو کا وائٹ بورڈ لگا تھا اور اس وائٹ بورڈ کے ساتھ گلی کے فرش پر ایک بلیک بورڈ پڑا تھا جس پر ہاتھ کی تصویر بنی تھی اور تصویر کے نیچے لکھا تھا ’’ اگر آپ کی جیب میں بیس پائونڈز ہیں تو آپ اپنے مقدر سے زیادہ دور نہیں ہیں‘‘ ہم دونوں مسکرانے پر مجبور ہو گئے کیونکہ ہمارے پاس بیس بیس پائونڈ تھے‘ ہم دونوں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ گئے‘ یہ ایک چھوٹا سا کمرا تھا جس کی چاروں دیواروں پر کتابوں کے ریک تھے اور ان ریکس میں ہزاروں کتابیں تھیں۔

کمرے کے عین درمیان میں رائٹنگ ٹیبل تھی‘ اس رائٹنگ ٹیبل پر ہاتھ کے درجنوں پرنٹس پڑے تھے‘ ٹیبل لیمپ جل رہا تھا اور لیمپ کی روشنی میں چار سو دس سال کا ایک انگریز ہاتھ کے ایک نقشے پر جھکا ہوا تھا‘ اس کا گنجا سر لیمپ کی روشنی میں چمک رہا تھا‘ اس کے سر کی جلد پر برائون رنگ کے چھوٹے چھوٹے سیکڑوں تل تھے‘ میں نے اتنی بڑی تعداد میں تلوں کے نشان زندگی میں پہلی بار دیکھے تھے‘ مجھے کمرے کے ماحول میں عجیب قسم کی پراسراریت محسوس ہوئی۔

ہم دونوں میز کے قریب کھڑے ہو گئے‘ بوڑھا ہاتھ کے پرنٹ پر بدستور جھکا رہا‘ ہمیں جب اس پوزیشن میں کئی منٹ گزر گئے اور ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھ دیکھ کر طنزیہ مسکراہٹوں کا تبادلہ کر کر کے تھک گئے تو بوڑھے نے اسی جھکی ہوئی پوزیشن میں کہا ’’ تم دونوں چالیس پائونڈزنکال کر میز پر رکھ دو‘‘ ہم دونوں کے منہ سے ہنسی نکل گئی کیوںکہ یہ پچھلے پندرہ منٹوں میں اس کمرے کی پہلی آواز تھی‘ وہ ایک ایسا گونگا بہرہ کمرہ تھا جس کا چھوٹا سا پنکھا بھی بغیر آواز کے چل رہا تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا بوڑھے پامسٹ نے تمام آوازوں کو کان سے پکڑ کر کمرے سے نکال دیا ہے۔

وہ کمرے کی خاموشی کا حصہ بن کر دو چار سو سال سے ہاتھوں کے پرنٹس پر جھکا ہوا ہے اور ہم اس صدی کے پہلے لوگ ہیں جنھوں نے اس کے مقدس معبد کو اپنے پائوں اور طنزیہ مسکراہٹوں سے آلودہ کرنے کی کوشش کی اور وہ ابھی سر اٹھا کر ہماری طرف دیکھے گا ‘ گاڈفادر کی شیطانی آواز میں ہمیں اٹھا کر بحرالکاہل میں پھینکنے کا حکم دے دے گا‘ میں نے فوراً جیب سے پچاس پائونڈ کا نوٹ نکالا اور اس کی میز پر رکھ دیا۔

اس نے نوٹ کی طرف دیکھے بغیر سختی سے کہا ’’ اونلی فورٹی پائونڈز‘ ناٹ ففٹی‘‘ میں نے فوراً گھبرا کر نوٹ اٹھا لیا‘ جیبیں ٹٹولیں‘ چالیس پائونڈ اکٹھے کیے اور میز پر رکھ دیے‘ بوڑھا مکینیکل انداز سے سیدھا ہوگیا‘ اف خدایا‘ میں اس کا چہرہ دیکھ کر حیران رہ گیا‘ اس کے چہرے پر سیکڑوں جھریاں تھیں اور یہ تمام جھریاں جمی ہوئی آبشار کی طرح چہرے کی ہڈیوں کے ساتھ لٹک رہی تھیں اور جب وہ بولتا تھا تو یہ جھریاں تار پر لٹکے ہوئے کپڑوں کی طرح دائیں بائیں اور شمالاً جنوباً جھولتی تھیں۔

ہم دونوں اس کے سامنے بیٹھ گئے‘ میرے دوست کو اپنی شادی کے بارے میں جاننے کا تجسس تھا‘ وہ دل کی اتھاہ گہرائیوںسے کسی کے ساتھ شادی کرنا چاہتا تھا لیکن یہ شادی ممکن نہیں تھی چناںچہ اسے جہاں کوئی پامسٹ ‘آسٹرالوجسٹ یا روحانی شخصیت ملتی تھی وہ اپنے دونوں ہاتھ اس کے سامنے پھیلا دیتا تھا اور جب تک پامسٹ اس کی مرضی کی بات نہیں کرتا تھا وہ اس کی جان نہیں چھوڑتا تھا‘ اس نے اس بار بھی یہی کیا۔

اس نے دونوں ہاتھ ٹیبل لیمپ کی ’’ بیم‘‘ کے نیچے رکھے اور اس سے پوچھا ’’مسٹر فراسٹ‘ کیا میری شادی میری مرضی کے مطابق ہو جائے گی‘‘ فراسٹ نے قہقہہ لگایا‘ اس نے کرسی کی پشت کے ساتھ ٹیک لگائی‘ آدھا بجھا ہوا سگار جلایا اور اس کے بعد وہ بات کہہ دی جس نے میری زندگی کا رخ تبدیل کر دیا‘ یہ وہ سچ‘ یہ وہ حقیقت تھی جسے میں برسوں سے کتابوں‘ درگاہوں‘ دانشوروں اور روحانی بابوں کی مجلسوں میں تلاش کر رہا تھا لیکن مجھے یہ حقیقت ملی کہاں؟

لندن کی ایک گم نام گلی کی چھوٹی سی کافی شاپ کی دوسری منزل کے چھوٹے سے کمرے میں ستر اسی سال کے گم نام پامسٹ کے پاس‘ شاید علم بھی رزق کی طرح ہوتا ہے‘ یہ بھی آپ کو دانا دانا کر کے ملتا ہے اور یہ جب‘ جہاں اور جس کے ساتھ لکھا ہوتا ہے آپ دھکے‘ ٹھڈے کھاتے ہوئے اس تک پہنچ جاتے ہیں اور رزق کے نوالے اور ٹھنڈے گرم پانی کے گھونٹ کی طرح علم بھی آپ کی دسترس میں آ جاتا ہے‘ میرے ایک بزرگ نے دس سال پہلے کہا تھا ’’ بیٹا مت (عقل) دینے والی چیز نہیں‘ یہ لینے والی جنس ہے‘‘ اور مجھے اور میرے دوست کو وہ سچ لندن کے اس گم نام پامسٹ نے تھما دیا۔

پامسٹ نے سگار کا کش لیا اور بولا ’’ سوال یہ نہیں کہ آپ کی شادی وہاں ہوگی یا نہیں ‘سوال یہ ہے کہ کیا وہ شادی آپ کو خوشی بھی دے گی‘‘ ہم دونوں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا‘ وہ بولا ’’ میں پچاس سال سے اس پروفیشن میں ہوں‘ میں نے اب تک ہزاروں لوگوں کے ہاتھ دیکھے‘ ان میں سے ہر دوسرے شخص کو دولت چاہیے تھی‘ ہر تیسرا شخص مرضی کی شادی کرنا چاہتا تھا‘ ہر چوتھا شخص پروفیشن میں ترقی کا متمنی تھا‘ ہر پانچواں شخص اولاد تلاش کر رہا تھا اور ہر چھٹا شخص دشمن کو ذلیل وخوار دیکھنا چاہتا تھا لیکن ان میں سے آج تک کسی نے مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ جو دولت مجھے ملے گی کیا مجھے اس سے خوشی بھی نصیب ہو گی‘ کیا میں مرضی کی شادی کے بعد خوش بھی رہ سکوں گا‘ کیا میری ترقی مجھے خوشی بھی دے گی‘ کیا مجھے اس اولاد سے خوشی بھی ملے گی جس کو میں ڈاکٹروں کے کلینکس میں تلاش کر رہا ہوں اور کیا دشمن کے ذلیل وخوار ہونے کے بعد میں خوش ہو جائوں گا‘‘۔

وہ رکا‘ اس نے سگار کا لمبا کش لیا اور بولا ’’ ہم لوگ خوشی اور سکون کی تلاش میں ہیں‘ یہ دونوں چیزیں ہماری ہر حرکت‘ ہمارے ہر کام کی وجہ اور مقصد ہیں اور اگر انسان کی زندگی سے خوشی کی تلاش اور سکون کی جستجو نکال دی جائے تو انسان اور چمپینزی میں کوئی فرق نہیں رہے گا‘ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر پتھر کے زمانے میں واپس چلے جائیں لیکن ہم ان دونوں چیزوں کو ہمیشہ فراموش کر بیٹھتے ہیں‘ ارے بھائی پانی مقصد نہیں ہوتا، مقصد پیاس بجھانا اور جسم کے خلیوں کو شفاف اور صاف ستھرا مایع فراہم کرنا ہوتا ہے‘ خوراک مقصد نہیں ہوتی‘ مقصد بھوک مٹانا ہوتا ہے‘ دولت مقصد نہیں ہوتی‘ مقصد اس دولت سے خوشیاں حاصل کرنا ہوتا ہے اور شادی مقصد نہیں ہوتی‘ مقصد وہ مسرت‘ وہ سرشاری ہوتی ہے جو قدرت دو انسانوں کے درمیان کہیں چھپا دیتی ہے اور یہ دونوں مل کر اسے تلاش کرتے ہیں‘‘۔

اس نے قہقہہ لگایا‘ قہقہے کے ساتھ ہی اس کی جھریاں ہوا میں لہرائیں اور اس کے دانتوں کی درزوں سے سگار کے دھوئیں کی باریک باریک سی تاریں باہر نکلنے لگیں‘ وہ بولا ’’ہمیں خوشی کو پہلی ترجیح دینی چاہیے‘ ہم اگر اسے ٹاپ پر رکھیں گے تو ہی ہماری زندگی اچھی اور بامعنی ہو سکے گی کیونکہ میں نے ایسے ہزاروں لوگ دیکھے ہیں جو اربوں پائونڈز کے مالک ہیں لیکن اس دولت نے انھیں خوشی نہیں دی‘ میں نے دنیا کے بہترین اور خوب صورت ترین جوڑوں کو اسی کمرے‘ انھیں کرسیوں پر روتے دیکھا ہے‘ میں نے دنیا کے کام یاب ترین لوگوں کو بھی اداس اور مایوس دیکھا ہے اور میں نے خوب صورت اور ذہین ترین بچوں کے والدین کو بھی اپنی اولاد سے مایوس اور دکھی پایا۔

انسان کو کام یابیاں‘ ترقیاں‘ ساتھی اور دوست خوشی نہیں دیتے‘ انسان کو خوش رہنے کا آرٹ خوشی دیتا ہے اور جو شخص دس پائونڈ میں خوش رہنے کا ہنر نہیں سیکھتا اس شخص کو دس بلین پائونڈز بھی خوش نہیں کر سکتے‘ جو شخص دوسروں کے بچوں کو دیکھ کر خوش نہیں ہو سکتا وہ دس بچوں کا باپ بن جائے تو بھی اسے خوشی نہیں مل سکتی‘ جو شخص پانچ منٹ کی ملاقات‘ ڈیڑھ منٹ کا ٹیلی فون اور ایک ایس ایم ایس سے خوش نہیں ہو سکتا اس شخص کو عمر بھر کا ساتھ بھی خوشی نہیں دے سکتا‘ جو شخص مسجد‘ مندر‘ چرچ یا سینا گوگ کی دہلیز پر ایک قدم رکھ کر خوش نہیں ہو سکتا اسے عمر بھر کی عبادت خوشی نہیں دے سکتی۔

جو شخص برگر کی ایک ’’ بائٹ‘‘ پر خوش نہیں ہو سکتا وہ دنیا کے سب سے بڑے ریستوران کی مہنگی ترین ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کر بھی خوش نہیں ہو سکتا اور جو شخص ٹرین یا بس کی سیٹ ملنے پر خوش نہیں ہو سکتا وہ بوئنگ کارپوریشن یا مائیکروسافٹ کا چیئرمین بن کر بھی خوشی محسوس نہیں کر سکتا‘ ہم جب تک دعا اور کوشش سے پہلے خوشی کی عادت نہیں ڈالتے کام یابی اس وقت تک ہمیں خوشی نہیں دیتی چناں چہ خوشی اصل اثاثہ ہوتی ہے‘‘۔ وہ بولتے بولتے رک گیا۔

میں نے اس سے پوچھا ’’ لیکن کیا اپنی خوشی خودغرضی نہیں ہوتی‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’نہیں عام آدمی کے لیے نہیں‘ سینیٹ (صوفی) اور عام آدمی میں فرق ہوتا ہے‘ سینیٹ وہ ہوتا ہے جو دوسروں کو خوش کر کے خوش ہوتا ہے جب کہ عام آدمی خوش ہو کر دوسروں کو خوش کرتا ہے‘ ہم سب عام لوگ ہیں‘ ہم سینیٹ نہیں ہیں چناںچہ خوش ہونا سیکھو ورنہ ہر کام یابی ‘ ہر وش (دعا) اور ہر سٹرگل (کوشش) کے آخر میں تمہارے لیے 

دکھوں کے سوا کچھ نہیں ہوگا‘‘۔

To Read Previous Columns of Javed Ch Please Click Here


No comments:

Post a Comment